آدھی رات کو فون بجا
اور ابھری اک انجانی مغلوب صدا
اپنی چیخ کی دہشت سے
ابھی ابھی وہ جاگی ہے معلوم ہوا
بیضوی چہرہ
بے صورت
سر پر مڑے تڑے دو سینگ
اور سینے کے وسط میں اک
پنج کونی آنکھ
آنکھ کی پتلی میں میرا ہی عکس مقید
آتش فشاں پہاڑ کی گہرائی سے ابھر کر
خونی پنجے
بھینچ بھینچ کر
کھردرے لہجے میں وہ چیخا
اپنی مرضی کی تو صبح بستر پر
جسم نہیں
مکڑی کا جالا پاؤگی
میرا حکم ہے آ جاؤ
اور برہنہ ہوتے ہی
مجھ کو چھو کر
میرے جیسی بن جاؤ
آ جاؤ
آ جاؤ
آ جاؤ
نظم
کوئی دود سے بن جاتا ہے وجود
حامد جیلانی