EN हिंदी
کوئی آواز نہیں | شیح شیری
koi aawaz nahin

نظم

کوئی آواز نہیں

تنویر انجم

;

گرد ہمارے گھروں تک پھیل گئی
اس موسم میں کوئی بارش نہیں

ہم نے بادل کے آخری ٹکڑے کو گزر جانے دیا
اب وہ میرے نا فرمان بیٹے کی طرح

واپس نہیں آئے گا
دشمنی ہمارے دلوں تک پھیل گئی

اس رات میں کوئی کرامات نہیں
ہم نے پانی کو کیچڑ میں مل جانے دیا

اب وہ بوڑھے کی کھوئی ہوئی بینائی کی طرح واپس نہیں آئے گا
موت ہمارے جسموں تک پھیل گئی

ان گلیوں میں کوئی آواز نہیں
ہم نے خون کو سڑکوں پر بہہ جانے دیا

اب وہ میرے بچھڑے ہوئے خدا کی طرح
واپس نہیں آئے گا