صبح سویرے
ایک لرزتی کانپتی سی آواز آتی ہے
سونے والو! تم مالک کو بھول گئے ہو
تم مالک کو بھول گئے ہو
پھر چمکیلی مل کا سائرن
ایک غلیظ ڈرانے والی تند صدا کے روپ میں ڈھل کر
دیواروں سے ٹکراتا ہے
اور گلیوں کے
تنگ اندھیرے باڑے میں کہرام مچا کر
بھیڑوں کے گلے کو ہانک کے لے جاتا ہے
پھر انجن کی برہم سیٹی
میخ سی بن کر میرے کان میں گڑ جاتی ہے
اور شب بھر کی نچی ہوئی اک ریل کی بوگی
اپنی کلائی انجن کے پنجے میں دے کر
چل پڑتی ہے
پھر اک دم اک سناٹا سا چھا جاتا ہے
اور میں گھڑی کی ظالم سوئیوں کی ٹک ٹک میں
دن کے زرد پہاڑ پہ چڑھنے لگتا ہوں

نظم
کوہ ندا
وزیر آغا