بتاؤں کیا تجھے اے ہم نشیں کس سے محبت ہے
میں جس دنیا میں رہتا ہوں وہ اس دنیا کی عورت ہے
سراپا رنگ و بو ہے پیکر حسن و لطافت ہے
بہشت گوش ہوتی ہیں گہر افشانیاں اس کی
وہ میرے آسماں پر اختر صبح قیامت ہے
ثریا بخت ہے زہرہ جبیں ہے ماہ طلعت ہے
مرا ایماں ہے میری زندگی ہے میری جنت ہے
میری آنکھوں کو خیرہ کر گئیں تابانیاں اس کی
وہ اک مضراب ہے اور چھیڑ سکتی ہے رگ جاں کو
وہ چنگاری ہے لیکن پھونک سکتی ہے گلستاں کو
وہ بجلی ہے جلا سکتی ہے ساری بزم امکاں کو
ابھی میرے ہی دل تک ہیں شرر سامانیاں اس کی
زباں پر ہیں ابھی عصمت و تقدیس کے نغمے
وہ بڑھ جاتی ہے اس دنیا سے اکثر اس قدر آگے
مرے تخئیل کے بازو بھی اس کو چھو نہیں سکتے
مجھے حیران کر دیتی ہیں نکتہ دانیاں اس کی
جبیں پر سایہ گستر پرتو قندیل رہبانی
عذار نرم و نازک پر شفق کی رنگ افشانی
قدم پر لوٹتی ہے عظمت تاج سلیمانی
ازل سے معتقد ہے محفل نورانیاں اس کی
ادائیں لے کے آئی ہے وہ فطرت کے خزانوں سے
جگا سکتی ہے محفل کو نظر کے تازیانوں سے
وہ ملکہ ہے خراج اس نے لیے ہیں بوستانوں سے
بس اک میں نے ہی اکثر کی ہیں نافرمانیاں اس کی
وہ میری جرأتوں پر بے نیازی کی سزا دینا
ہوس کی ظلمتوں پر ناز کی بجلی گرا دینا
نگاہ شوق کی بیباکیوں پر مسکرا دینا
جنوں کو درس تمکیں دے گئیں نادانیاں اس کی
وفا خود کی ہے اور میری وفا کو آزمایا ہے
مجھے چاہا ہے مجھ کو اپنی آنکھوں پر بٹھایا ہے
مرا ہر شعر تنہائی میں اس نے گنگنایا ہے
سنی ہیں میں نے اکثر چھپ کے نغمہ خوانیاں اس کی
مرے چہرے پہ جب بھی فکر کے آثار پائے ہیں
مجھے تسکین دی ہے میرے اندیشے مٹائے ہیں
مرے شانے پہ سر تک رکھ دیا ہے گیت گائے ہیں
مری دنیا بدل دیتی ہیں خوش الحانیاں اس کی
لب لعلیں پہ لاکھا ہے نہ رخساروں پہ غازہ ہے
جبین نور افشاں پر نہ جھومر ہے نہ ٹیکا ہے
جوانی ہے سہاگ اس کا تبسم اس کا گہنا ہے
نہیں آلودۂ ظلمت سحر دامانیاں اس کی
کوئی میرے سوا اس کا نشاں پا ہی نہیں سکتا
کوئی اس بارگاہ ناز تک جا ہی نہیں سکتا
کوئی اس کے جنوں کا زمزمہ گا ہی نہیں سکتا
جھلکتی ہیں مرے اشعار میں جولانیاں اس کی
نظم
کس سے محبت ہے
اسرار الحق مجاز