تمہاری آنکھیں خوشی کی خواہش لیے ہوئی تھیں
تمہاری سوچوں میں عہد ماضی کی سلوٹیں تھیں
تمہارے گیسو گھمرتی گھرتی گھٹاؤں کے کچھ گھنیرے بادل بنے ہوئے تھے
قدم بڑھائے نظر جھکائے بدن بدن چرائے آ رہی تھی
ہوائیں بھی گنگنا رہی تھیں
کلی کلی مسکرا رہی تھی
خزاں رسیدہ چمن میں جیسے بہار چپکے سے آ رہی تھی
مگر اچانک
یہ خواب ٹوٹا تو میں نے دیکھا
ردائے شب پہ کوئی ستارا نہیں تھا باقی
جہاں جدائی کے سارے لمحے گلے ملے تھے وہاں محبت کی مانگ بھرنے کو شبنم اتری
خزاں رسیدہ بدن دریدہ وہ شب گزیدہ اداس لمحے!
عجیب وحشت جگا رہے تھے
وجود سے وہ عدم کی دنیا میں جا رہے تھے
کہ خواب تھا بس تمہارا آنا
نظم
کہ خواب تھا بس تمہارا آنا
کرامت بخاری