EN हिंदी
کہ در گفتن نمی آید | شیح شیری
ki dar guftan nami aayad

نظم

کہ در گفتن نمی آید

گوپال متل

;

مری جاں گو تجھے دل سے بھلایا جا نہیں سکتا
مگر یہ بات میں اپنی زباں پر لا نہیں سکتا

تجھے اپنا بنانا موجب راحت سمجھ کر بھی
تجھے اپنا بنا لوں یہ تصور لا نہیں سکتا

ہوا ہے بارہا احساس مجھ کو اس حقیقت کا
ترے نزدیک رہ کر بھی میں تجھ کو پا نہیں سکتا

مرے دست ہوس کی دسترس ہے جسم تک تیرے
سمجھتا ہوں کہ تیرے دل پہ قبضہ پا نہیں سکتا

ترے دل کی تمنا بھی کروں تو کس بھروسے پر
میں خود درگاہ میں تیری یہ تحفہ لا نہیں سکتا

مری مجبوریوں کو بھی بہت کچھ دخل ہے اس میں
تجھی کو مورد الزام میں ٹھہرا نہیں سکتا

میں تجھ سے بڑھ کے اپنی آبرو کو پیار کرتا ہوں
میں اپنے عزت و ناموس کو ٹھکرا نہیں سکتا

ترے ماحول کی پستی کا طعنہ دوں تجھے کیوں کر
میں خود ماحول سے اپنے رہائی پا نہیں سکتا