EN हिंदी
خواتین کا بینک | شیح شیری
KHwatin ka bank

نظم

خواتین کا بینک

خالد عرفان

;

سنتے ہیں شہر میں جو خواتین کا ہے بینک
پرویز کا نہیں ہے یہ پروین کا ہے بینک

رکھی ہیں اس لیے یہاں خاتون منیجر
اس محکمے کو چاہئے باتون منیجر

لیڈیز اتحاد جو بیگانگی سے ہے
کیا جانے خوف کیا انہیں مردانگی سے ہے

نوک زباں بھی چلنے لگی ہے زباں کے ساتھ
بیٹی بھی ہے شریک لڑائی میں ماں کے ساتھ

ہر نازنیں کے سامنے اک بیوٹی بکس ہے
باقی رکھا ہے گھر میں یہ تھوڑا سا عکس ہے

بیٹھی ہیں اپنے سامنے گیسو سنوار کے
لاکر میں رکھ دیا ہے دوپٹہ اتار کے

چٹخارے ہیں زباں پہ نظر میں اشارے ہیں
ہر ماہ وش کے پرس میں املی کٹارے ہیں

جو بات کر رہی ہیں کمائی کے شعبے کی
وہ ہیڈ ہیں لگائی بجھائی کے شعبے کی

کل ساس سے زبان کے بل پر لڑی ہیں یہ
علم لسانیات میں پی ایچ ڈی ہیں یہ

کھاتے کی ان کو فکر نہ لیجر کی فکر ہے
نندوں کی غیبتیں ہیں تو دیور کا ذکر ہے

شادی کے بعد نقطہ بنیں ڈیش ہو گئیں
پہلے جو چیک بک تھیں وہ اب کیش ہو گئیں

ہر نازنیں کی عمر بھی خفیہ اکاؤنٹ ہے
کیا جانے ان کی عمر میں کتنا اماؤنٹ ہے

یہ حسن کا خزانہ کوئی کیا دبوچے گا
ڈاکو بھی ڈاکہ ڈالنے سے پہلے سوچے گا

ناکارہ شوہروں کو بھی ڈیبٹ کرائیے
نسوانیت یہاں سے کریڈٹ کرائیے