اس نے خواہش کی تو وہ ظاہر ہوا
رنگ تاریکی سے نکلے اور صدا دینے لگے
سایہ سایہ ہو گئی کالی گپھا کی تیرگی
اور ہر منظر نمایاں ہو گیا
میں بھی تھا اک روشنی اور تیرگی کے درمیاں
مجھ کو بھی ظالم ہوا نے ڈس لیا
اور میں بھی زندگی کی آگ میں جلتے لگا
خاک و خوں کے رنگ میں ڈھلنے لگا
اس نے خواہش کی تو اس کو موت کے سائے ملے
میں نے خواہش کی تو مجھ کو جسم کا مقتل ملا
نظم
خواہش کا جرم
کمار پاشی