تم بتلاؤ کیا جانتے ہو
کیا سوچتے ہو
اور اس بیکار تماشے میں کیوں زندہ ہو
اوپر نیچے دائیں بائیں آگے پیچھے
ہے ایک رنگ
جو کچھ بھی تھا
وہ سب کالک میں ڈوب گیا
جو کچھ بھی ہے
وہ رفتہ رفتہ رنگ بدلتا جاتا ہے
یہ چاند یہ سورج سیارے
یہ منظر منظر نظارے
اک خواب ہے سوئے آدمی کا
جو سویا ہے
شاید تنویم کے زیر اثر
جانے کتنے اندھے کالے انجان برس
جو جاگے گا تو
ایک رنگ
بس ایک رنگ
دائیں بائیں آگے پیچھے اوپر نیچے
اک کالا بدبو دار سمندر دائیں طرف
اک کالا بدبو دار سمندر بائیں طرف
آگے پیچھے
اوپر نیچے
تم بتلاؤ کیا جانتے ہو
کیا سوچتے ہو
اور اس بیکار تماشے میں
کیوں زندہ ہو
نظم
خواب تماشا(2)
کمار پاشی