سپنے میں رات آئی دلی
دیر تلک بتیائی دلی
پوچھ رہی تھی حال بتاؤ
گزرا کیسے سال بتاؤ
بسنے والوں میں دلی کے
بولو سچے دوست نہیں تھے
یا کہ بزرگوں کی صحبت میں
کمی تھی کچھ ان کی شفقت میں
بہ یک نظر ہر چیز بھلا دی
منظر کو یا خود کو سزا دی
میں جو تیرے دل کی ادا تھی
کیا میری الفت ہی خطا تھی
گلیاں سڑکیں دفتر ہوٹل
ہر جا ہے یادوں کی ہلچل
آج میں کیا خوبی ہے جو یوں
بھول چکے ہو تم اپنا کل
حسن کے ہیں وہ کون سے جلوے
جو میرے دامن میں نہیں تھے
کیا ایسی افتاد پڑی جو
بھول گئے دل ساز زمیں کو
کیا میرے سائے کے نیچے
راحت اور آرام نہیں تھے
مانا پرائی تھی میں ہائے
اپنوں سے کتنے سکھ پائے
سوالوں کی اس آڑ میں دلی
وجہ جدائی پوچھ رہی تھی
جمی تھیں مجھ پر کئی نگاہیں
دل میں دبی تھیں اپنی آہیں
کہتا کیا الفاظ نہیں تھے
آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے
ساری حالت جان گئی وہ
کہہ کے مجھے نادان گئی وہ
سپنے میں رات آئی دلی
دیر تلک بتیائی دلی
نظم
خواب کی دلی
عطا عابدی