اے میرے بدن سے لپٹی ہجرت کی سرشاری!
خواہش کی بے سمت جہت کے کہنے میں مت آ
میرے بازوؤں میں قوت تو ہے
جو سوکھے سمندر میں تیرتی کشتی کے پتوار میں اتری ہے
لیکن میری ٹانگوں میں
حرکت کے کوڈز مسلسل مرتے جاتے ہیں
گونج ایک بہاؤ میں میری جانب بڑھتی ہے
اور خاموشی۔۔۔
چہرے کے خال و خط سے نوچ کے لے جاتی ہے
میں رفتہ رفتہ
خواہش کے انبار میں گرتا جاتا ہوں
نیند کی طغیانی میں بہتا جاتا ہوں
پھر صحن کے نل سے بہتے پانی کی آواز
مرے رستے پر
سرگوشی پھینک کے جاتی ہے
مجھ کو خواب کدوں کی حیرت سے واپس لے آتی ہے
نظم
خواب کدوں سے واپسی
قاسم یعقوب