EN हिंदी
خواب ہستی | شیح شیری
KHwab-e-hasti

نظم

خواب ہستی

معین احسن جذبی

;

وہ زمانے اور تھے جب تیرا غم سہتا تھا میں
جب ترے ہونٹوں کی رنگینی سے کچھ کہتا تھا میں

جب ترے بالوں سے گھنٹوں کھیلتا رہتا تھا میں
بھول جا اے دوست وہ رنگیں زمانے بھول جا

یک بیک بجلی سی چمکی اور نشیمن لٹ گیا
تو نے برسوں جس کو سینچا تھا وہ گلشن لٹ گیا

تو نے موتی جس میں ٹانکے تھے وہ دامن لٹ گیا
بھول جا اے دوست وہ رنگیں زمانے بھول جا

تجھ کو جس دل سے محبت تھی وہ اب دل ہی نہیں
رقص جس کا تجھ کو بھاتا تھا وہ بسمل ہی نہیں

رنگ محفل تجھ سے کیا کہیے وہ محفل ہی نہیں
بھول جا اے دوست وہ رنگیں زمانے بھول جا

اب نہ وہ شوق تصور، اب نہ وہ ذوق فغاں
مٹ رہے ہیں رفتہ رفتہ عہد رفتہ کے نشاں

دھندلی دھندلی سی نظر آتی ہیں کچھ پرچھائیاں
بھول جا اے دوست وہ رنگیں زمانے بھول جا

یہ جوانی، یہ پریشانی، یہ پیہم اضطراب
بارہا الجھن میں دوڑا ہوں سوئے جام شراب

بارہا گھبرا کے چھیڑا ہے گناہوں کا رباب
بھول جا اے دوست وہ رنگیں زمانے بھول جا

رنگ صہبا اور ہے صہبا کی مستی اور ہے
ذکر پستی اور ہے احساس پستی اور ہے

خواب ہستی اور ہے تعبیر ہستی اور ہے
بھول جا اے دوست وہ رنگیں زمانے بھول جا