شام ہوتے ہی میں
پسینے میں بھیگا ہوا بدن
کھونٹی سے لٹکا دیتا ہوں
دن بھر کی کمائی دیکھنے کے لیے
جیبیں ٹٹولتا ہوں تو خالی ہاتھ
جیبوں سے باہر گر پڑتے ہیں
سوچتا ہوں
پچاس سے اوپر کا ہو چکا ہوں
میرا مستقبل کیا ہوگا
آنے والی نسل کو کیا منہ دکھاؤں گا
پسینے میں بھیگا ہوا بدن
دھونے سے ڈرتا ہوں
کہ آنے والے میری محنت کی نشانی مانگیں گے
تو کیا دکھاؤں گا
کھونٹی پر لٹکا ہوا بدن
ساری رات مجھے گھورتا رہتا ہے
خالی ہاتھ
چارپائی کے نیچے پڑے رہتے ہیں
صبح ہونے پر
بدن کھونٹی سے اتارتا ہوں
ہاتھ چارپائی کے نیچے سے اٹھاتا ہوں
دروازہ کھولتا ہوں
دن اپنی پوری سفاکی کے ساتھ
ایک بار پھر میرے مقابل کھڑا ہوتا ہے
نظم
کھونٹی پر لٹکا ہوا بدن
جاوید شاہین