بہت ہی سخت بہت ہی طویل ہے یہ گھڑی
اس عہد قہقری کا ہر قدم ہے ایک صدی
یہ عہد جس پہ کئی نسلوں کی ہے گرد پڑی
یہ پیر زال یہ قلعہ کنار آب رواں
بھڑکتے شعلوں کے مانند جس کا ہر گنبد
یہ کنگرے ہیں کہ ہیں بھٹیوں کے انگارے
جلا کے رکھ دیئے جن کی تپش نے لاکھوں مکاں
یہ ہے علامت فسطائیت گراؤ سے
ہمارے بچوں کے اسکول سے ہٹاؤ اسے
یہ خونی قلعہ کا پھاٹک ہے یا دہان جہیم
فصیل سنگ عبارت ہے خوں کے دھبوں سے
دیئے لہوں کے فروزاں کیے ہوئے ہر طاق
ہے جن کے سامنے خیرہ طلا و گوہر و سیم
صدائے رقص نکلتی ہوئی جھرونکوں سے
کسی حسینۂ فرعون کا محل جیسے
ستون مرمریں انگڑائی لے کے نیند میں چور
لباس برہنگی میں نہاں قلو پطرہ
میان نیل کوئی لاش دیکھ کر ہنس دے
اس عہد قہقری کا ہر قدم ہے ایک صدی
بہت ہی سخت بہت ہی طویل ہے یہ گھڑی
ندی یہ ہے کہ زمیں پر ہے ایک لاش پڑی
نظم
خونی قلعہ
وامق جونپوری