آج اس بزم میں آئے ہو بڑی دھوم کے ساتھ
بے خودی محو نظارہ ہے تمہاری خاطر
یاد آتے ہیں وہ ایام جدائی ہم کو
جنہیں ہنس ہنس کے گزارہ ہے تمہاری خاطر
گو مع لطف سے خالی نہیں پندار جنوں
یاں غم عشق کا یارا ہے تمہاری خاطر
رنج اٹھانا تو کوئی بات نہیں ہے لیکن
زہر پینا بھی گوارا ہے تمہاری خاطر
ہار اور جیت کے مفہوم میں کیا رکھا ہے
جیت کر بھی کوئی ہارا ہے تمہاری خاطر
ترک شیراز ہو تم حافظ شیراز ہوں میں
اب سمرقند و بخارا ہے تمہاری خاطر
تم جو آئے ہو تو اس زیست کی لذت پا کر
ہم نے عالم کو سنوارا ہے تمہاری خاطر
آج ہم نے مہ و انجم کو بھی زحمت دی ہے
آسمانوں سے اتارا ہے تمہاری خاطر
لالہ و گل کو بہاروں کو سمن زاروں کو
دیدہ و دل نے پکارا ہے تمہاری خاطر
پھر یہاں شیشہ و ساغر سے چراغاں ہوگا
پھر کوئی انجمن آرا ہے تمہاری خاطر

نظم
خوش آمدید
انجم اعظمی