وہ کیسی تاریک گھڑی تھی
جب مجھ کو احساس ہوا تھا
میں تنہا ہوں
اس دن بھی سیدھا سادہ سورج نکلا تھا
شہر میں کوئی شور نہیں تھا
گھر میں کوئی اور نہیں تھا
اماں آٹا گوندھ رہی تھیں
ابا چارپائی پر بیٹھے اونگھ رہے تھے
دھیرے دھیرے دھوپ چڑھی تھی
اور اچانک دل میں یہ خواہش ابھری تھی
میں دنیا سے چھٹی لے لوں
اپنے کمرے کو اندر سے تالا دے کر کنجی کھو کر
زور سے چیخوں، چیختا جاؤں
لیکن کوئی نہ سننے پائے
چاقو سے ایک ایک رگ و ریشے کو کاٹوں
اور بھیانک سچائی کا دریا پھوٹے
ہر کپڑے کو آگ لگا دوں
شعلوں میں ننگے پن کا سناٹا کودے
وہ دن تھا اور آج کا دن ہے
کمرے کے اندر سے تالا لگا ہوا ہے
کنجی گم ہے
میں زوروں سے چیخ رہا ہوں
میرے جسم کا ایک ایک ریشہ کٹا ہوا ہے
سب کپڑوں میں آگ لگی ہے
باہر سب پہلے جیسا ہے
کوئی نہیں جو کمرے کا دروازہ توڑے
کوئی نہیں جو اپنا کھیل ذرا سا چھوڑے
نظم
خود آگہی
فرحت احساس