میرے پاس
بہت سارے خواب
اور بہت سارے سیب ہیں
ایک افرودیتی کے لیے
ایک سیفوؔ کے لیے
اور ایک اپنا کوزی کو دوا کے لیے
جس نے آئینے کے سامنے
اپنی چھاتیوں کا
ٹینس کی گیند
یا دھرتی سے
موازنہ نہیں کیا ہوگا
میرے تمام خواب
ان کے لیے
جن کے آنسوؤں سے میری نظمیں بنیں
میری محبوبہ کے لیے
میرے پاس نہ کوئی خواب ہے
اور نہ سیب
خزاں کے آتے آتے
میں اس درخت کے سائے سے
اٹھ کر چلا جاؤں گا
جہاں خواب اور سیب
اگتے ہیں
نظم
خزاں کے آتے آتے
احمد آزاد