یارب ترے بندوں سے قضا کھیل رہی ہے
اک کھیل بعنوان دغا کھیل رہی ہے
جس کھیل کو صرصر نے بھی کھیلا نہ چمن میں
اس کھیل کو اب باد صبا کھیل رہی ہے
الجھے ہوئے حالات کے تیور ہیں خطرناک
بدلے ہوئے موسم کی ہوا کھیل رہی ہے
رندان تہی دست سزاوار سبو ہیں!
ٹوٹی ہوئی توبہ سے گھٹا کھیل رہی ہے
لغزیدہ قدم اذن خرد مانگ رہے ہیں
دزیدہ نگاہوں میں حیا کھیل رہی ہے
اورنگ شہی ہیچ ہے رندوں کی نظر میں
محلوں کی بلندی پہ قضا کھیل رہی ہے
احرام سے جبے سے مصلے سے عبا سے
شورشؔ مری بے خوف نوا کھیل رہی ہے
نظم
کھیل
شورش کاشمیری