ایک سایہ سا در آیا
کوئی نیلا سایہ
کانپ اٹھی شاخ نحیف
کانپ اٹھی ایک نئی سی آہٹ
رات بڑھتی رہی مسموم سیاہ
سیل سے بچ کے اکیلا میں کہاں بیٹھا ہوں
جسم سے نقطے میں تبدیل ہوا جاتا ہوں
نظم
خوف
اسلم عمادی
نظم
اسلم عمادی
ایک سایہ سا در آیا
کوئی نیلا سایہ
کانپ اٹھی شاخ نحیف
کانپ اٹھی ایک نئی سی آہٹ
رات بڑھتی رہی مسموم سیاہ
سیل سے بچ کے اکیلا میں کہاں بیٹھا ہوں
جسم سے نقطے میں تبدیل ہوا جاتا ہوں