ناگہاں آج مرے تار نظر سے کٹ کر
ٹکڑے ٹکڑے ہوئے آفاق پہ خورشید و قمر
اب کسی سمت اندھیرا نہ اجالا ہوگا
بجھ گئی دل کی طرح راہ وفا میرے بعد
دوستو قافلۂ درد کا اب کیا ہوگا
اب کوئی اور کرے پرورش گلشن غم
دوستو ختم ہوئی دیدۂ تر کی شبنم
تھم گیا شور جنوں ختم ہوئی بارش سنگ
خاک رہ آج لیے ہے لب دلدار کا رنگ
کوئے جاناں میں کھلا میرے لہو کا پرچم
دیکھیے دیتے ہیں کس کس کو صدا میرے بعد
'کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق'
'ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد'
End of the Rain of Stones
نظم
ختم ہوئی بارش سنگ
فیض احمد فیض