EN हिंदी
خط کا انتظار | شیح شیری
KHat ka intizar

نظم

خط کا انتظار

امیراورنگ آبادی

;

روز و شب رہتا ہے مجھ کو ان کے خط کا انتظار
کس طرح بہلاؤں دل کو کس طرح پاؤں قرار

در پہ باندھے ٹکٹکی میں دیکھتی ہوں بار بار
پاس میرے آج شاید آئے گا پیغام یار

پا کے آہٹ نامہ بر کی کچھ سکوں پاتی ہوں میں
اک حیات نو مجھے ملتی ہے کھل جاتی ہوں میں

دور ہوتی ہے تڑپ کافور ہو جاتی ہے یاس
دیکھتی ہوں شوق کی نظروں سے اپنی آس پاس

نامہ کیا آیا کہ گویا آ گئے وہ میرے پاس
پھول جاتی ہوں مسرت سے بدلتی ہوں لباس

پڑھتی رہتی ہوں میں پہروں انت کچھ ماتا نہیں
درد و غم کی داستاں بھی ختم ہوتی ہے کہیں

خط کو آنکھوں سے لگا کر چومتی ہوں دم بہ دم
تاکہ قلب مضطرب کی ساری بیتابی ہو کم

تولتی ہوں حرف سارے عشق کی میزان میں
اور سمو لیتی ہوں ان کا حسن اپنی جان میں