EN हिंदी
خرگوش کی سرگزشت | شیح شیری
KHargosh ki sarguzisht

نظم

خرگوش کی سرگزشت

ساقی فاروقی

;

رقص
شام کھڑی ہے

بھوری جھاڑیوں،
پیلی گھاسوں کے خیموں سے باہر نکلو

نرم ہوائیں بالوں کی جھالر سے گزرتی
لمبے لمبے کانوں میں خرگوشی کرتی ہیں

سرخ کونپلیں
سبز پتیاں

سانپ چھتریاں۔۔۔
جنگل میں گودام کھلا ہے پاگل

اپنے بیکل نتھنوں میں
اس خوش بو کا چھلا ڈال کے رقص کرو

ہر خطرے کو چکمہ دو
چور چٹانوں کے نیچے

سو دروازے ہیں
کیسر پھولوں کے بستر ہیں

دھوم مچانے کو سارا میدان پڑا ہے
موت

اور تم اپنے شبستاں چھوڑ کر
اس بیاباں کے اندھیرے راستے پر

خون میں لت پت پڑے ہو
اس کی آخر کیا ضرورت تھی

وہاں پر تم جہاں کے حکمراں تھے
کیا نہیں تھا؟

خواب کی دیوار کیوں کر پار کرنا چاہتے تھے
اس تجسس میں کشش کیسی ہے

نامعلوم کو تسخیر کی تمنا کس لیے ہے
اس پرانی آرزو مندی میں کیا ہے

اس خیاباں کے عقب میں
وہ جو پر اسرار دنیائیں بسی ہیں

وہ ہمیں کیوں کھینچتی ہیں؟