مکاں جل چکا ہے
کھنڈر ہے سیاہی ہے بجھتی ہوئی راکھ کی سسکیاں ہیں
مری آنکھ پر نم ہے
چپ چاپ گم سم کھڑا ہوں یہاں پر
مرے آنسوؤں میں
تصاویر ہیں
ماضی و حال کی
وقت کی منزلوں کی
مرے ذہن میں داستاں ہے
زمانے کے بننے بگڑنے کی
تعمیر و تخریب کی دھڑکنوں کی
مرے کان میں گونجتی ہیں وہ نرم اور شیریں صدائیں
جنہیں آگ نے اس مکان کے کھنڈر میں فنا کر دیا ہے
محبت کی تقدیس
معصوم شمعوں کے اشکوں کی گرمی
دھوئیں کی تڑپتی ہوئی دھاریاں
ان کا پیغام بن کر
فضاؤں میں شاید بھٹکنے لگی ہیں
مری آنکھ پر نم ہے پھر بھی میں خوش ہوں
مرے پاس خوابوں کی معصوم ٹھنڈک
ارادوں کے روشن ستاروں کی نرمی
تخیل کی بہتی ہوئی نغمگی ہے
میں یادوں کے ملبے پہ تخلیق کا پھول لے کر کھڑا ہوں

نظم
کھنڈر اور پھول
بلراج کومل