EN हिंदी
خمستانِ ازل کا ساقی | شیح شیری
KHumistan-e-azal ka saqi

نظم

خمستانِ ازل کا ساقی

ظفر علی خاں

;

پہنچتا ہے ہر اک مے کش کے آگے دور جام اس کا
کسی کو تشنہ لب رکھتا نہیں ہے لطف عام اس کا

گواہی دے رہی ہے اس کی یکتائی پہ ذات اس کی
دوئی کے نقش سب جھوٹے ہیں سچا ایک نام اس کا

ہر اک ذرہ فضا کا داستان اس کی سناتا ہے
ہر اک جھونکا ہوا کا آ کے دیتا ہے پیام اس کا

میں اس کو کعبہ و بت خانہ میں کیوں ڈھونڈنے نکلوں
مرے ٹوٹے ہوئے دل ہی کے اندر ہے قیام اس کا

مری افتاد کی بھی میرے حق میں اس کی رحمت تھی
کہ گرتے گرتے بھی میں نے لیا دامن ہے تھام اس کا

وہ خود بھی بے نشاں ہے زخم بھی ہیں بے نشاں اس کے
دیا ہے اس نے جو چرکا نہیں ہے التیام اس کا

نہ جا اس کے تحمل پر کہ ہے اب ڈھب گرفت اس کی
ڈر اس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا