زعفرانی شبیہ تھی اس کی
میں بھی تھا سبزۂ بہار کا رنگ
یوں ہوئی تیز قربتوں کی دھوپ
روپ بہروپ اعتبار کا رنگ
بیچ میں آ گئی خزاں ایسی
برگ جذبات ہو گئے پیلے
پڑ گئی عشق پر عجب افتاد
پھر نیا موسم سیاست تھا
کھنچ گئی پھر فصیل تفریقات
دور کا ڈھول جشن تقریبات
قرض کی طرح حسن کی خیرات
رہ گئے ہاتھ کاسۂ شبہات
ایک نقشہ ہے بے پناہی کا
اور اس پر عنایتوں کی پناہ
عشق تھا پیشۂ جنوں پہلے
تیز تھا تیشۂ فسوں پہلے
اب تو یہ مانگتا ہے خوں پہلے
بدلے بدلے ہیں وقت اور حالات
حکمراں ہر طرف ہوئے صدمات
شغل دوراں ہے صرف شہ اور مات
ڈھونڈھتا پھر رہا ہوں راہ نجات
خواب پر یوں زوال آیا ہے
قربتوں پر سوال آیا ہے
کیا ہوا ہم بھی چل نہ پائے ساتھ
اک خلش رہ گئی مگر جاناں
نظم
خلش
خورشید اکبر