یہ کس نے مرے جسم کی تاریخ الٹ دی؟
سانسوں کی زمیں پر،
اک کھوئی ہوئی ساعت مسمار کے کتبے!
رفتار کے
گفتار کے
اظہار کے کتبے!
بے خواب ستاروں پہ جیے جا رہا ہوں میں۔
ناپید سمندر کو پیے جا رہا ہوں میں۔
صدیوں کے کئی رنگ جو تحلیل ہیں مجھ میں
جدت کی دراڑوں سے ٹپکتے ہیں ابھی تک
ناپید سمندر سے چھلکتے ہیں ابھی تک
بے خواب ستاروں میں چمکتے ہیں ابھی تک
روحوں کے جنوں میں،
محدود سکوں میں،
کتبے ابھر آئے ہیں مرے خوں کی تڑپ سے
مجھ میں مرے اجداد بھٹکتے ہیں ابھی تک

نظم
خلا نوردی
ریاض لطیف