اب کس لیے جہان خرابی میں گھومنا
وہ سو گئی تو اس نے نہ دیکھا کہ اس کے بعد
کتنی بڑی قطار کھلے زاویوں کی تھی
وقت آ گیا تھا وصل و مکافات وصل کا
اونچی زمیں پہ ریل کی کھڑکی کے ساتھ ساتھ
غاروں میں بستروں میں زمیں پر رضائی میں
اب کس لیے جہان خرابی میں لوٹنا
سو آشیاں کو مثل کبوتر اڑائیے
اور دن گزر چلے تو یہ بازو سمیٹ کر
انگشتری کو آئنے پر مار سوئیے
وقت آ گیا ہے وصل و مکافات وصل کا
نظم
خانہ بدوشوں کا گیت
محمد انور خالد