EN हिंदी
خاموشی سے ایک مکالمہ | شیح شیری
KHamoshi se ek mukalima

نظم

خاموشی سے ایک مکالمہ

ملک احسان

;

خاموشی سے پوچھا میں نے
کیوں آتی ہے پاس تو میرے

آخر کیوں سمٹی رہتی ہے
کیا رکھا ہے کیا ملتا ہے تجھ کو یہاں پر

کچھ نہیں بولی
چپ سی رہی

اور دور تلک پھر پھیل گئی وہ