انجم سے بڑھ کے تیرا ہر ذرہ ضو فشاں ہے
جلووں سے تیرے اب تک حسن ازل عیاں ہے
انداز دل فریبی جو تجھ میں ہے کہاں ہے
فخر زمانہ تو ہے اور نازش جہاں ہے
افتادگی میں بھی تو ہم اوج آسماں ہے
''اے خاک ہند تیری عظمت میں کیا گماں ہے''
وہ کج کلاہ تیرے وہ سورویر تیرے
وہ تیغ زن کماں کش وہ قلعہ گیر تیرے
ناپید آج ہیں گو تاج و سریر تیرے
شاہوں سے ہیں زیادہ لیکن فقیر تیرے
پستی میں سر بلندی سب پر تری عیاں ہے
''اے خاک ہند تیری عظمت میں کیا گماں ہے''
منظر وہ جاں فزا ہیں اور دل پذیر تیرے
جانیں ہیں تجھ پہ شیدا اور دل اسیر تیرے
شیریں و صاف دریا ہیں جوئے شیر تیرے
ہیں دشت و کوہ و صحرا جنت نظیر تیرے
آنکھیں جدھر اٹھاؤ فردوس کا سماں ہے
''اے خاک ہند تیری عظمت میں کیا گماں ہے''
تجھ کو مٹا دیا ہے ہر چند آسماں نے
پھونکا ہے آہ دل کو سوز غم نہاں نے
چھوڑی نہ تاب اپنی پر حسن دل ستاں نے
جوہر بھرے ہیں تجھ میں صناع دو جہاں نے
فصل خزاں ہے تیری پھر بھی تو گل فشاں ہے
''اے خاک ہند تیری عظمت میں کیا گماں ہے''
گو حد سے بڑھ گیا ہے رنج و ملال تیرا
اب تک مٹا نہیں ہے نقش جمال تیرا
آخر کبھی تو ہوگا ظاہر کمال تیرا
ہوگا کبھی تو آخر دور زوال تیرا
کب اک روش پہ قائم یہ دور آسماں ہے
''اے خاک ہند تیری عظمت میں کیا گماں ہے''
نظم
خاک ہند
تلوک چند محروم