پائیں باغ میں
چاند اترا
اور چندن مہکا
رات کی سانول ڈالی سے
اک نرم گلابی ناگن لپٹی
چاروں اور میں
ریشم نرم ہوا کا جنگل
دود گلابی ہریل مخمل
حوض کنارا
سیمیں پانی
جھل جھل کرتا جسم
اس پر
ایک سیاہ طلسم
دور محل کی کھڑکی میں
وہ دہکا اک انگارا
صبح کے مقتل میں اک کوندا
سجل لہو کا دھارا
سیج پہ سج گئے
لاتعداد
بصرے اور بغداد
محرابوں سے امڈ پڑے ہیں
سات دشا کے قلزم
گردن پر آ بیٹھا ہے
موت کا تسمہ پا
جیون کے دروازے پر
کوئی پکارے پیہم
سم سم
سم سم
سم سم
نظم
کینچلی بدلتی رات
انوار فطرت