لفظ اپنی جگہ سے آگے نکل جاتے ہیں
اور زندگی کا نظام توڑ دیتے ہیں
اپنے جیسے لفظوں کا گٹھ بنا لیتے ہیں
اور ٹوٹ جاتے ہیں
ان کے ٹوٹے ہوئے کناروں پر
نظمیں مرنے لگتی ہیں
لفظ اپنی ساخت اور تقدیر میں
کمزور ہو جاتے ہیں
معمولی شکست ان کو ختم کر دیتی ہے
ان میں
ٹوٹ کر جڑ جانے سے محبت نہیں رہ جاتی
ان لفظوں سے
بد صورت اور بے ترتیب نظمیں بننے لگتی ہیں
سفاکی سے کاٹ دئیے جانے کے بعد
ان کی جگہ لینے کو
ایک اور کھیپ آ جاتی ہے
نظموں کو مر جانے سے بچانے کے لیے
ہر روز ان لفظوں کو جدا کرنا پڑتا ہے
اور ان جیسے لفظوں کے حملے سے پہلے
نئے لفظ پہنچانے پڑتے ہیں
جو ایسا کر سکتا ہے
شاعر رہ سکتا ہے
نظم
کون شاعر رہ سکتا ہے
افضال احمد سید