EN हिंदी
کون سا باغ | شیح شیری
kaun sa bagh

نظم

کون سا باغ

جیلانی کامران

;

کون سے باغ میں جا کر ہو آئے
دل کی ہر بات سنا کر ہو آئے!

ایک ساعت کو جہاں دیکھا کئی چہرے تھے
خوش نما بزم میں ہر ایک طرف

پھول کے ادھ کھلتے ہوئے سہرے تھے
اک عجب آب و ہوا بکھری تھی

جس کے چلنے سے سحر اور بہت نکھری تھی
میں نے ہر سمت کہا میں ہوں! یہ تم ہو؟

تو ہے؟
ایسے عالم میں یہ کیا خوشبو ہے؟

اک عجب وقت رہا دید کا دیکھا پایا
محفل راہ میں جس جس کو زمیں پر دیکھا

اس کو اس باغ میں چلتے پایا