EN हिंदी
کشید شب | شیح شیری
kashid shab

نظم

کشید شب

کشور ناہید

;

آج کی رات بھی پھر خواب جگائیں گے مجھے
پھر وہ کروٹ سے خیالوں کے تسلسل کو مٹانے کی کشید کوشش

جسم کے درد کو سلوٹ میں سمو کے
وہی بستر پہ تڑپتے ہوئے مہجورئ جاناں کو

کبھی آہ کبھی سانس کی گہرائی میں شل کرنے کی
سعی ناکام

یہ بھی معلوم ہے
یہ نیم رسی فہم کی دیوار تلک جست

یہ سائے کی تصویر کسی شکل و شباہت کے تسلسل کے نشاں ہیں لیکن
ناصبوری یہ بدن توڑتی انگڑائیاں

ہونٹوں پہ مہکتی لرزش
بات کو ربط کے آہنگ میں لانے کی طلب

میرے سینے کا دھواں آنکھیں شرابور کیے
ہر بن مو کو ملاقات کا جویا کر دے

آنکھ چڑھتے ہوئے دریا کی طرح ہے پر آب
پاؤں پھسلے ہے تو پھر سانس کا رشتہ نہ رہے

ہم تو چاہیں مگر اس دل کو یہ اچھا نہ لگے
جاں کنی حد سے بڑھی چارہ گرو کچھ تو کرو