یہ کس نے بزم ادب کے سکون کو تاکا
مشاعروں میں بھی پڑنے لگا ہے اب ڈاکہ
مشاعرے میں ڈکیتی کا شوق رکھتے ہیں
ہمارے عہد کے ڈاکو بھی ذوق رکھتے ہیں
ادب نواز تھے ڈاکو سخن شناس تھے وہ
مرے وطن کی سیاست کا اقتباس تھے وہ
عجب ڈکیت تھے جن کا نصیب پھوٹا تھا
جنہوں نے شہر کے ان مفلسوں کو لوٹا تھا
پڑا وہ رن کہ اک استاد شعر بھول گیا
کسی نحیف سے شاعر کا سانس پھول گیا
بیاض اپنی کسی نے اچھال کر رکھ دی
بجائے کیش رباعی نکال کر رکھ دی
ادھر ڈکیت سنبھالے تھے گن اڑائی ہوئی
ادھر وہ پیل رہا تھا غزل چرائی ہوئی
یہ کس نے بزم سخن لوٹ لی خدا جانے
''تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے''
مشاعرے میں نہ سونا تھا اور نہ چاندی تھی
سخن وروں کی تو ہر چیز ہی پرانی ہے
جو سب سے قیمتی شے ہے وہ شیروانی ہے
یہ اپنے شعر سناتے ہی پھوٹ لیتے ہیں
مشاعرے کو ترنم سے لوٹ لیتے ہیں
ہمارے شعر سنیں اور شعر بیں ہو جائیں
خدا کرے کہ یہ ڈاکو بھی سامعیں ہو جائیں
نظم
کراچی کے مشاعرے میں ڈاکہ
خالد عرفان