اہل ادب نے پھر یہ کیا تجربہ نیا
شاعر مواصلات کی دنیا پہ چھا گیا
مریخ پر مشاعرہ کر لو کہ مون پر
ہم تو اب اپنے شعر سنائیں گے فون پر
شاعر ادھر ہے، صدر ادھر، سامعین ادھر
میں پھونک مارتا ہوں تو بجتی ہے بین ادھر
دولہا کو فاصلے پہ رکھا ہے برات سے
مطلب یہ ہے کہ دور رہو شاعرات سے
امریکہ سے غزل جو پڑھی ہم نے لہر میں
گونجی ہے اس کی داد کراچی کے شہر میں
شعروں میں آ گیا ہے جو مغرب کا رنگ خاص
محسوس ہو رہا ہے کہ شاعر ہے بے لباس
کس حال میں کلام بلاغت ہوا عطا
شاعر ہے باتھ روم میں سامع کو کیا پتا
بے شک مواصلاتی قدم انقلابی ہے
اٹکے جہاں پہ کہہ دیا فنی خرابی ہے
شاعر نے شعر عرض کیا رامپور سے
مصرعہ اٹھا دیا ہے کسی نے قصور سے
شاعر نے جب بیاض نکالی جہاز میں
گونجی ہیں ''واہ وا'' کی صدائیں حجاز میں
راکٹ کی طرح شعر گرے سامعین پر
شاعر ہے آسماں پہ تباہی زمین پر
پہلے یہ حکم تھا کہ دلائل سے شعر پڑھ
اور اب یہ کہہ رہے ہیں موبائل سے شعر پڑھ
کہتے تھے پہلے شعر کو مصرعہ اٹھا کے پڑھ
اور اب یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈائل گھما کے پڑھ
کہنے لگے برائی کو دوزخ میں جھونک دے
مائک سے دور ہے تو ریسیور میں بھونک دے
جب داد مل رہی تھی مجھے سامعین سے
اک شعر لڑ گیا تھا کسی مہہ جبین سے
میں نے جو فاصلوں کی یہ دیوار پاٹ دی
صدر گرامی نے مری لائن ہی کاٹ دی
نظم
کراچی کا مواصلاتی مشاعرہ
خالد عرفان