EN हिंदी
کل ہم نے سپنا دیکھا ہے | شیح شیری
kal humne sapna dekha hai

نظم

کل ہم نے سپنا دیکھا ہے

ابن انشا

;

کل ہم نے سپنا دیکھا ہے
جو اپنا ہو نہیں سکتا ہے

اس شخص کو اپنا دیکھا ہے
وہ شخص کہ جس کی خاطر ہم

اس دیس پھریں اس دیس پھریں
جوگی کا بنا کر بھیس پھریں

چاہت کے نرالے گیت لکھیں
جی موہنے والے گیت لکھیں

دھرتی کے مہکتے باغوں سے
کلیوں کی جھولی بھر لائیں

امبر کے سجیلے منڈل سے
تاروں کی ڈولی بھر لائیں

ہاں کس کے لیے سب اس کے لیے
وہ جس کے لب پر ٹیسو ہیں

وہ جس کے نیناں آہو ہیں
جو خار بھی ہے اور خوشبو بھی

جو درد بھی ہے اور دارو بھی
وہ الہڑ سی وہ چنچل سی

وہ شاعر سی وہ پاگل سی
لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں

ہم نام نہ اس کا بتلائیں
اے دیکھنے والو تم نے بھی

اس نار کی پیت کی آنچوں میں
اس دل کا تینا دیکھا ہے؟

کل ہم نے سپنا دیکھا ہے