EN हिंदी
کل اور آج | شیح شیری
kal aur aaj

نظم

کل اور آج

احمد راہی

;

کل جس جگہ یہ چھاؤں گھنی تھی
جہاں پہ تم نے مجھ سے وعدہ

لیا تھا دوبارہ ملنے کا
میں اس جگہ پہ آیا تھا

مگر وہاں دھوپ کڑی تھی
تم تو نہ تھیں لیکن

تم سے ملتی جلتی
جھریاں جھریاں چہرے والی

کوئی عورت
کبھی جو خود بھی

کسی سے ملنے
اسی جگہ پر آئی ہوگی

قہر آلود نگاہوں سے مجھے گھور رہی تھی
میں لوٹ آیا

تیرے اور میرے جذبوں کے
بیچ میں ایک فصیل کھڑی تھی

اور اوپر سے دھوپ کڑی تھی!