وہ حسین تھی مہ جبین تھی
بے گمان تھی بے یقین تھی
زندگی کی نرم نرم آہٹیں
بے سبب یوں ہی مسکراہٹیں
انگلیوں میں بال کو لپیٹنا
دامن خیال کو لپیٹنا
ہر گھڑی وہی ملنے والیاں
بے خیالیاں خوش خیالیاں
نرم الجھنیں کم سنی کے خواب
انگ انگ میں چھیڑا انقلاب
منہ پر اوڑھنی جی کبھی نہیں
میں تو آپ سے بولتی نہیں
اور پھر حیا زندگی کی مار
معرفت کا بوجھ جبر و اختیار
ایک جان اور سینکڑوں وبال
جسم کی دکھن روح کا خیال
زندگی بڑھی روشنی لیے
روشنی بڑھی تیرگی لیے
انکسار میں اک غرور سا
کچھ خمار سا کچھ سرور سا
دائرے یہاں دائرے وہاں
رقص میں نظر رقص میں جہاں
گفتگو میں بل خامشی میں لوچ
رات کروٹیں کروٹوں میں سوچ
دل بجھا بجھا تشنگی کی آنچ
اجنبی تھکن زندگی کی آنچ
اس کے کام آئیں اس کا دکھ بٹائیں
اس کو چھیڑ دیں اور مسکرائیں
اس کی آنکھ میں کتنا درد ہے
رنگ زرد ہے روح زرد ہے
وہ اداس ہے کیوں اداس ہے
اس کی زندگی کس کے پاس ہے
یہ گناہ کیوں بھول کیوں نہیں
باغ میں تمام پھول کیوں نہیں
نظم
کیف سے خمار تک
محبوب خزاں