لفظ تصویریں بناتے ترے ہونٹوں سے اٹھے تھے لیکن
دیکھتے دیکھتے تحلیل ہوئے
ان کی حدت مری رگ رگ میں رواں تھی سو رہی
پھر ترے ہاتھوں کا لمس ایسے ملائم الفاظ
تیری آنکھوں کی چمک روشن و مبہم الفاظ
اور وہ لفظ جو لفظوں میں نہاں رہتے ہیں
اور وہ لفظ کہ اظہار کے محتاج نہیں
پھر بھی ہیں ان کے لیے گوش بر آواز سبھی
ان کے ہم راز سبھی
سب سنے میں نے مگر آخر کار
سبھی تحلیل ہوئے
لفظ پھر روپ بدل کر مرے دل میں لرزے
شوق اظہار میں بے تاب ہوئے
لفظ اظہار میں صورت ہی بدل لیتے ہیں
جانے کیا بات تھی کیا سمجھے لوگ
ہر کوئی اپنے ہی لفظوں میں مگن
ہر کوئی اپنے ہی رس رنگ میں گم
ہر کوئی اپنے ہی آہنگ میں گم
اور پھر لفظ کہ رہتے ہیں گریزاں خود سے
کون سنتا ہے انہیں؟ کون سمجھتا ہے انہیں؟
جانے کیا بات تھی کیا تو نے سنی
اپنے اظہار پہ نادم تھا پشیمان تھا میں
اپنی ہی بات پہ حیران تھا میں
پھر مری بات بھی تحلیل ہوئی
جیسے تو بھول گئی جیسے جہاں بھول گیا
اور اب میں ہوں وہ اک لفظ غریب
کوئی پوچھے بھی تو چپ رہتا ہوں
نظم
کہی ان کہی
ضیا جالندھری