یہ کس نے آگ ہوتے روز و شب میں
مجھ کو ماں کہہ کر پکارا ہے
کہ جس کی پیار میں ڈوبی ہوئی آواز نے
ہر آگ کو شبنم بنایا ہے
کہ اب رتبہ مجھے ماں کا دلایا ہے
مرے بچے
میں تیری منتظر
شاید ازل سے تھی
ترے ہی واسطے شاید میں جنت چھوڑ کر
دنیا میں آئی تھی
کہ اب جو تجھ کو پایا ہے
مرے جلتے بدن میں مامتا کی چھاؤں اتری ہے
مرے بچے
میں اب صحرا نہیں
ایسا شجر ہوں
جس کے سائے میں
فقط تو ہی نہیں
بے خواب میری زندگی بھی
بہت آسودگی میں کھو گئی ہے
کہانی جو ادھوری تھی مکمل ہو گئی ہے
نظم
کہانی جو ادھوری تھی
عنبرین حسیب عنبر