EN हिंदी
کہاں | شیح شیری
kahan

نظم

کہاں

پروین طاہر

;

کہاں جا رہے ہو
سیہ روشنی کی

چکا چوند دھارا کے دوجے کنارے پہ
اندھا کنواں اک قدم فاصلہ

کہاں جی رہے ہو
کھلی آنکھ کے دل نشیں خواب کی

ایک تصویر میں
جس کی تعبیر ازلوں سے معدوم ہے

کہاں ہنس رہے ہو
پس قہقہہ

آڈیبل رینج سے بھی بہت دور نیچے
کراہوں کی لہریں فنا ہو رہی ہیں

کہاں دیکھتے ہو
ستاروں کے پیچھے نئی کہکشائیں

جہاں پہ تجاذب بھی اس پار جیسا
ریپلشن بھی جو کہ یہاں بھوگتے ہو

کہاں جا رہے ہو