حرف
گویائی کی زنجیر میں جب قید ہوا
اسم بنا
عہد بنا
نظم بنا
قصۂ کام و دہن کا غم مطلوب بنا
خوب و نا خوب بنا
حرف نا گفتہ
مگر ذہن کا آزار بنا
دل کی دیوار بنا
راہ دشوار بنا
قصۂ شوق کی وارفتہ کہانی نہ بنا
حیلۂ وصل کی غم دیدہ نشانی نہ بنا
وار ہے منزل گویائی
سبھی جانتے ہیں
حرف نا گفتہ کے یہ زخم مگر میرے ہیں
جن کو تنہائی مری
مجھ سے سوا جانتی ہے

نظم
کڑے کوس
کشور ناہید