کتاب حیات کا یہ پنا
اچھا ہوتا جو برقرار رہتا
وقت کی تیز رفتار پر
کاش میرا بھی اختیار رہتا
ایک دل کش سفینہ بن کر
گزرے وقت کا لمحہ لمحہ
آنکھوں کی گہری جھیل میں
کھائے ہچکولے رفتہ رفتہ
یہ سفینہ ساحل پا بھی لیتا
گر ہاتھ میں پتوار رہتا
یوں تو ایک لمبے عرصے تک
ساتھ رہے ہم ایک جگہ
لیکن جیسے ہی ملے کیوں
جدائی کا لمحہ آ گیا
قافلہ وقت کا یہیں تھم جائے
ہے بس یہی انتظار رہتا
نظم
کاش وقت تھم جاتا
ؔآدتیہ پنت ناقد