اپنے ہونے
اور نہ ہونے میں
خوشی کی غم کی اطمینان کی تحقیق
بے مصرف ہے
اور اک سعئ لا حاصل کے سوا کچھ بھی نہیں
یہ زندگی
اک جنگ تحمیلی ہے
اور میں
بے نتیجہ جنگ کا سر باز ہوں کوئی
جو بیہودہ سوالوں سے
ازل سے بر سر پیکار
ابد آثار نا پیدا
مائل
تار ابریشم
وجود
اک کرم کی مانند
غائب ہو رہا ہے دم بہ دم
یہ بھی غنیمت تھا مگر
ریشم کے خواہاں ہی کہاں باقی
کبھی یہ سوچتا ہوں میں
کسی گوشے میں بیٹھوں
اور رجوع اک مرد کامل سے کروں
لیکن
مجھے بھی تو یہ پہلے جاننا ہوگا
طفل عقل
کیوں از بلخ تا بہ قونیہ
یوں خواب میں ڈوبا رہا
یا پھر
اسی ایک یاد کو عنوان دے دوں زیست کا
تو نو دمیدہ وہ کلی
شامل ہوئی یا کی گئی
جو زندگی میں
جس کی خوشبو نے مرے گھر کو مہک سے بھر دیا
طوطیٔ خوش رنگ و الحاں کی چہک سے بھر دیا
میں اک محقق بھی رہا ہوں
ہفت سالہ دورۂ تحقیق کا
حاصل یہی ہے
سر بہ زانو دم بخود ہوں
آخرش صادق ہدایت
خودکشی سے چاہتا کیا تھا
نتیجہ صفر ہے
یہ کار بیہودہ
یوں ہی ہوتا رہا ہے
بے سبب ہوتا رہے گا
نظم
کار بیہودہ
شہرام سرمدی