EN हिंदी
کانچ | شیح شیری
kanch

نظم

کانچ

محمد شہباز اکمل

;

تھکا ہارا ازل کی وسعتوں میں خاک کا پتلا
ہزاروں من کی تاریکی تلے تھا ساکت و جامد

ہر اک ذی روح کی نظروں کا مرکز، موجب حیرت
چمکتے نوریوں کی شوکت بیتاب کا شاہد

گھڑی میں کیا ہوا کیوں اس قدر مٹی کے پیکر نے
عجب لرزہ، عجب جنبش، عجب حرکت سے بل کھایا

کھنکتی خاک نے کیوں کانپنے کی ابتدا کر دی
نہ جانے ریزۂ جاں میں سمندر کیوں امڈ آیا

کسی سیال مادے کا بہت شفاف سا قطرہ
گرا اور کھب گیا، اس خاک کے بے لوث ٹکڑے پر

چبھن میں خار تھا لیکن جلن میں نار کی صورت
دیے روشن ہوئے، پھیلی ضیا وجدان کے اندر

پھر اک آواز! شاید تھا صدائے کن سے غل برپا
اسی سیال مادے سے بنا اک جذبۂ سوزاں

کہ جس کے ساتھ تھی بپھرے ہوئے احساس کی سوزش
ہوا اس دن سے ہی کار مروت ریزش پنہاں

محبت کی رطوبت نے تلاطم خیز گردش کی
سرود ہمت عالی اسی مضراب سے پھوٹا

بہت نازک، شگفتہ، تیز تر تاثیر تھی اس میں
کہ سنگ بد گمانی بھی اسی بلور سے ٹوٹا

اسی جوہر کی جنبش سے تو غیرت سر اٹھاتی ہے
ستم کے زہر کا تریاق آخر ''سانچ'' بنتا ہے

وفا کی آنچ، ارمانوں کا ایندھن تیز کرتا ہے
یہی جوہر پگھلتا ہے ''یقیں کا کانچ'' بنتا ہے