پھول کاغذ کے ہیں خوشبو سے بہت دور ہیں یہ
میری ماں تو انہیں بیکار چنا کرتی ہے
چاندنی ہو کہ کڑی دھوپ کی گرمی کچھ ہو
میری خاطر تو کہاں روز پھرا کرتی ہے
میرے ملبوس محبت کا جو پیوند بنے
مجھ کو اس ریشمی کپڑے کی ضرورت کیا ہے
جو کبھی اپنا کبھی غیر کا بیمار بنے
مجھ کو اس حسن کی یلغار سے نسبت کیا ہے
اپنے ہی ذوق تبسم میں گرفتار و اسیر
زرد چہرے پہ ملے غازۂ گل رنگ کی دھول
غیر ممکن ہے نہ دیں تیری نگاہوں کو فریب
مسکراتے ہوئے لب اور یہ ہنستے ہوئے پھول
کیا بڑھائیں گے کبھی زینت دامان خلوص
خارزاروں سے الجھنا جنہیں آتا ہی نہ ہو
جن سے قائم نہ ہو خود اپنے ہی جلووں کا وقار
آئینہ لے کے سنورنا جنہیں آتا ہی نہ ہو
رات بھر جلتا رہے چاہیے مجھ کو وہ چراغ
پھول کاغذ کے ہیں کچھ دیر میں جل جائیں گے
تیرے ہاتھوں کے تراشے ہوئے مجہول صنم
میرے ہاتھوں کی حرارت سے پگھل جائیں گے
کیا ملے گا مجھے اس گل کے تبسم سے کبھی
جس کے چہرے پہ ہو رنگین شرارت کی لکیر
کیا ملے گا مجھے اس ہات کی زیبائی سے
جس پہ چڑھتے ہوئے شرمائے حنا کی تحریر
ایسے گلشن میں کہاں رات کی رانی مہکے
جس کے ہر گوشے سے کترا کے گزرتی ہو بہار
قافلہ اپنی امیدوں کا کہاں پر ٹھہرے
دور تک چھایا ہو جب گردش دوراں کا غبار
دل میں اک وقت طرب ناک کا ارمان لیے
خود کو یوں وقف غم و گردش حالات نہ کر
جن کا دعویٰ ہے کہ ہیں تیرے مقدر کے خدا
میری خاطر تو کبھی ان سے کوئی بات نہ کر
پھول کاغذ کے ہیں خوشبو سے بہت دور ہیں یہ
میری ماں تو انہیں بیکار چنا کرتی ہے
چاندنی ہو کہ کڑی دھوپ کی گرمی چکھو
میری خاطر تو کہاں روز پھرا کرتی ہے
نظم
کاغذ کے پھول
فرید عشرتی