EN हिंदी
کائنات ذات کا مسافر | شیح شیری
kaenat-e-zat ka musafir

نظم

کائنات ذات کا مسافر

احمد ظفر

;

آئینہ رقص میں حسرت کی شناسائی کا
کتنے چپ چاپ خرابوں میں لیے جاتا ہے

ہر طرف نرخ زدہ چہروں کی آوازیں ہیں
میری آواز کہاں تھی میری آواز کہاں

مدفن وقت سے کب کوئی صدا آئی ہے
ایک لمحہ وہی لمحہ مری تنہائی کا

زخم پر زخم مرے دل کو دیے جاتا ہے
پھول کے ہاتھ میں ہے رات کے ماتم کا چراغ

کبھی بجھتا کبھی جلتا ہے سلگتا ہے کبھی
سانس سے جسم کا ناطہ مری رسوائی ہے

ہم سفر کون ہوا لالۂ صحرائی کا
پردۂ راز ازل چاک کیے جاتا ہے

سر ہتھیلی پہ سجائے ہوئے چلتے رہنا
زندہ رہنے کے لیے رسم رہے گی کب تک

درد دریا ہے وہی درد کی گہرائی ہے