رات کے پہلو میں
بیٹھا ہے سنہری اژدہا
احمریں پھنکار کے
مدھم سروں کا شور ہے
اس گھڑی لگتا ہے وہ کچھ اور ہے
بند ہوتے اور کھلتے دائروں کے درمیاں
آپ اپنی ذات کے گرداب میں
جیسے کوئی دیوتا محراب میں
وقت کے اس نقشۂ مبہم پہ کون
اس کے مسکن کا لگائے گا سراغ
کون رکھے گا ہتھیلی پر چراغ
اس کے نیش آرزو کے ذائقے چکھے گا کون
کس کو دل داری کی فرصت ہے یہاں
ہاں مگر یہ رات ہے اس کی رفیق
دیر تک اپنا بدن ڈسوائے گی
صبح ہونے تک اسی کے رنگ میں رنگ جائے گی

نظم
کابوس
شاہین مفتی