میں اک جوہی کا پودا ہوں
یہ بھی مجھ کو یاد نہیں ہے
میں اس راہ گزر پر کب سے
بس یوں ہی خاموش کھڑا ہوں
مجھ سے یہ پوچھا نہ کسی نے
کیسے ہو کیا سوچ رہے ہو
کیوں آخر خاموش کھڑے ہو
جیسے انہیں کی طرح میں خود بھی
اس آباد حسیں دنیا کی
وحدت کا حصہ ہی نہیں ہوں
جیسے میں زندہ ہی نہیں ہوں
میرے لفظوں کی شاخوں سے
یادوں کی کچھ کلیاں لے لیں
میرے رنگ برنگے نازک
خوابوں کی پنکھڑیاں لے لیں
کیا میرا انجام یہی ہے
کیا بس میرا کام یہی ہے
اپنے خون دل سے یوں ہی
راہوں پر میں پھول کھلاؤں
اور جو چاہے لوٹ لے مجھ کو
میں خاموش رہوں لٹ جاؤں
رک کر کوئی یہ بھی نہ پوچھے
کیسے ہو کیا سوچ رہے ہو
کیوں آخر خاموش کھڑے ہو
نظم
جوہی کا پودا
راہی معصوم رضا