نگار شام غم میں تجھ سے رخصت ہونے آیا ہوں
گلے مل لے کہ یوں ملنے کی نوبت پھر نہ آئے گی
سر راہے جو ہم دونوں کہیں مل بھی گئے تو کیا
یہ لمحے پھر نہ لوٹیں گے یہ ساعت پھر نہ آئے گی
جرس کی نغمگی آواز ماتم ہوتی جاتی ہے
غضب کی تیرگی ہے راستہ دیکھا نہیں جاتا
یہ موجوں کا تلاطم یہ بھرے دریا کی طغیانی
ذرا سی دیر میں یہ دھڑکنیں بھی ڈوب جائیں گی
مری آنکھوں تک آ پہنچا ہے اب بہتا ہوا پانی
تری آواز مدھم اور مدھم ہوتی جاتی ہے
نظم
جدائی
مصطفی زیدی